نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

ستمبر, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

Jainism

According to Jainism's own belief, it is an eternal religion, which has always existed. In Indian traditions since the world has no beginning or end. Therefore, in this sense, Jainism has always been and always will be. In each era, from time to time, twenty-four arrow thinkers (reformers) were born and worked to revive it. The last arrow was Thinker Mahavir Jain, after him no other reformer will come.         There is historical evidence that Mahavira Jain was not the founder of this religion. This tradition already existed in India. Mahavira's own family and even his entire community were followers of Jainism. Mahavira achieved the highest goal of Jainism through Sanyas and became the head of this religion.Mahavira's reforms in Jainism in the light of his experiences and observations, and the steps he took as the last arrow-thinker for its publication and consolidation, gave Mahavira the important position to be considered the founder of this religion. Seemed.

ہندو مت میں فرقہ ‏بندی ‏کا ‏آغاز۔

ہندو مت کے جو مذہبی رجحانات مہابھارت اور رامائن میں ملتے ہیں۔ موجودہ دور کے ہندو مذہب کی بنیاد انہیں مذہبی رجحانات اور رسومات پر مبنی ہے۔ یہ عقائد و رسومات پرانوں کے عہد میں بانٹا عروج پر تھے۔        پران ہندو روایات کی سب سے مقدس ارو آخری تصانیف ہیں جو ہندو دیو مالائ عناصر کے ذریعہ مذہبی اور کو پایے استقامت بخشتی ہیں۔ دور قدیم میں پرانوں کے لئے عناصر خمسہ کو ضروری قرار دیا گیا تھا، کیونکہ انک حیثیت بنیاد کی سمجھی گئ تھی، لیکن بعد کے پرانوں میں ان اصولوں کی پابندی بہت لم نظر آتی ہے۔ ہندو مت عہد وسطی تک پوری طرح فرقوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔یہ تقسیم اچانک نہیں تھی، بلکہ رزمیہ نظموں کے عہد سے ہی اس کا آغاز ہو چکا تھا۔ برہما، وشنو اور مہیش جنہیں" تری مورتی" کہا جاتا ہے۔کے ساتھ ساتھ ایک دیوی ماں بھی منظر عام پر آکر غیر معمولی مقبولیت کی حامل بنیں، جب کے برہما عوام کے ذہنوں کو مسخر کرنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا، اتنا ضرور ہے کہ برہما کی حیثیت ہندو دینیات میں مستند و معروف دیوتا کی ہے۔سوائے برہما کے مندرجہ بالا سبھی دیوتاؤں کے نام پر ہندو مت میں فرقے وجود میں آئے۔ ہندو مت در اص

جین مت کے پانچ بنیادی عہد

          (۱) اہنسا، (عدم تشدد)  (۲) ستیہ، (راست گفتاری) (۳) استیہ، (چوری نہ کرنا) (۴) برہمچریہ ( پاک دامنی) (۵) اپری گرہ (دنیا سے بے رغبتی)۔ ان پانچ بنیادی عہدوں کے علاوہ گھر بار رکھنے والے جینیوں کو سات اور عہد کرنے ہوتے ہیں، جو انہیں بنیادی عہدوں پر عمل کرنے مین معاون ہوتے ہیں۔          جین مت میں وہ جماعت جو جین سنگھ کہلاتی ہے، اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ مردوں کو سادھو اور عورتوں کو سادھوی کہا جاتا ہے۔ دونوں کو برہمچریہ کی بہت سخت پابندی کرنی ہوتی ہے۔ مردوں اور عورتوں کی جماعتیں کے نظام الگ الگ ہوتے ہیں۔ سنیاس کی ابتداء جین مت کے پانچ بنیادی عہدوں کی شکل میں لینے سے ہوتی ہے۔ پھر تمام دنیا سے ناطہ توڑ کر بے رغبتی کے ساتھ چند ضروری چیزوں کے علاوہ سب کچھ چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ مرد سادھو بغیر سلے تین کپڑے اور عورتوں کو چار کپڑے پہننے کی اجازت ہے۔ یہ اجازت بھی صرف شؤتامبر فرقہ کے سادھوؤں کو حاصل ہے۔ اس لئے کہ دگامبر فرقہ کے سادھو تو بالکل ننگے رہتے ہیں اس فرقہ میں عورتوں کو سنیاس لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایک سادھو اپنے پاس بھیک مانگنے کے دو برتن، ایک جھ

مہابھارت

   رامائن اور مہابھارت یہ دونوں رزمیہ نظمیں در اصل زیادہ طویل اور مختلف قسم کے کردار رکھنے والی تصانیف ہے۔ ویدوں سے مختلف، سنسکرت میں لکھی کوئ یہ طویل نظم اپنے دور کے ہندستان کی بھر پور عکاسی کرتی ہے۔اس نظم کا مرکزی حصہ راجا بھرت کے اخلاق کورؤں اور پانڈؤں کے درمیان تخت نشیبی کی جنگ سے متعلق ہے، نیز اس کتاب میں بہت سی غیر متعلق روایات اور دوسرے قصے اور واقعات بھی موجود ہیں۔ یہ نظم قدیم ہندستان سے متعلق معلومات کا خزانہ کہی جا سکتی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نظم کے مرکزی واقعات میں برابر اضافے ہوتے رہے، قدیم ہندستان کے اور بھی بہت سے رائج قصوں اور روایات کو اس میں جگہ دی جاتی رہی، اس طرح اس میں تقریبا ایک لاکھ اشعار جمع ہو گئے۔ رامائن کے مقابلہ میں مہابھارت زیادہ قدیم ماحول کی عکاسی کرتی ہے۔

دیوی ‏مت

         شیو کی پرستش کی طرح ہندوستان کے قدیم ترین مذہبی عقائد میں ایک دیوی کا تصور بھی رہا ہے۔ کیونکہ ہندوستانی تہذیب کے آثار کی کھدائ میں شیو جیسے ایک دیوتا کی تصویروں کے علاوہ ایک دیوی کی مورتیاں بھی ملی ہیں۔ جو شاید خوشحالی اور زرخیزی کی دیوی کی حیثیت سے پوجی جاتی تھی۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دیوی، ایک دیوی ماں کی صورت میں جو حقیقت الہیہ کے تصور کا مظہر تھی۔ بہر حال یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ایک دیوی ماں کی حیثیت سے کائنات کی حقیقت اعلی کا تصور ایک قدیم تصور تھا۔ خود آریوں کے یہاں بھی کائنات کی مختلف طاقتوں کو دیویوں کی حیثیت سے مانا جاتا تھا۔ دیدک ادب میں اسی لئے بہت سی قوتوں سے متعلق مختلف ناموں کے ساتھ دیوی کا ذکر ملتا ہے۔ مہابھارت میں دیوی کا تذکرہ درگا کی حیثیت میں ملتا ہے۔ جو سری کرشن کی بہن ہے۔ کہیں شیو جی کی پوس اما کی صورت ہے تو کہیں اسے کالی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ ویدک اور رزمیہ نظموں کے دور کے بعد جب پرانوں کے دور میں داخل ہوتے ہیں تو ہندو مت کی مذہبی کتابوں میں دیوی ماں اور اس کی شخصیت کی تفصیلات زیادہ بڑے پیمانے پر ملتی ہیں۔ مثلا کہیں دیوی کو ت

جین ‏مت

    جین مت کے اپنے عقیدہ کے مطابق، یہ ایک ابدی مذہب ہے، جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ ہندوستانی روایات میں چونکہ دنیا کی کوئ  ابتداء یا انتہا نہیں ہے۔ لہذا اس اعتبار سے جین مذہب بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔ ہر دور میں وقفہ وقفہ سے ایک بعد ایک چوبیس تیر تھنکر (مصلح) پیدا ہوتے رہے اور اس کے احیاء کا کام انجام دیتے رہے۔ آخری تیر تھنکر مہاویر جین تھے، ان کے بعد اب کوئ اور مصلح نہیں آئے گا۔         تاریخی اعتبار سے اس کے ثبوت موجود ہیں کہ مہاویر جین اس مذہب کے بانی نہیں تھے۔ ہندوستان میں یہ روایت پہلے سے موجود تھی۔خود مہاویر کا خاندان بلکہ انکی پوری برادری جین مذہب کی ہی پیرو تھی۔ مہاویر نے تو سنیاس کے ذریعہ جین مذہب کے مقصد اعلی کو حاصل کیا اور اس مذہب کے سربراہ بن گئے۔ مہاویر نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں جین مت میں جو اصلاحات کیں، اور اس کی اشاعت اور استحکام کے لئے بحیثیت آخری تیر تھنکر جو اقدامات کئے، اسکی بنا پر مہاویر کو وہ اہم مقام حاصل ہوا کہ وہی اس مذہب کے بانی سمجھے جانے لگے۔          مہاویر جین مشرقی ہندوستان کے مشہور شہر ویشالی کی ایک قریبی بستی میں ۵۹۹ق م م

ہندومت

 دنیا کے جن علاقوں میں  انسانی تہذیب و تمدن نے سب سے پہلے پھلنا پھولنا شروع کیا، ان میں ہندوستان بھی ایک خطہ آرہا ہے، چونکہ آریوں سے پہلی کی مذہبی روایات کے سلسلے میں کوئی قابل اعتماد معلومات نہیں ملتی ہیں، موہن جودا ڑو اور ہڑپہ کی کھدائی میں جس تہذیب و تمدن کے آثار ملے ہیں، وہ اگرچہ آر یوں  سے قبل کی ہے، مگر  آثار  میں ملنے والی زبان سے کوئی خاص معلومات  نہیں حاصل ہو پائیں ہیں، اسی ،لیے اس کے بارے میں معلومات بھی محدود ہیں یہی وجہ ہے کہ آریوں کی آمد کے ساتھ ہی جو مذہبی روایات یہاں، یعنی ہندوستان میں متعارف ہوئیں،  وہیں سے ہندوستانی مذاہب پر کوئی قابل اعتبار گفتگو کی جا سکتی ہے،  لہذا ہم نے بھی ہندوستانی مذاہب کا ذکر وہی سے شروع کیا ہے ہندستان چونکہ ایک قدیم  ملک  ہے، لہذا اس کی قدیم مذہبی روایات  کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، برہمنی مت اور ہندو مت ۔ بر ہمنی مت کا مطلب وہ روایات ہیں جن کا آغاز ہندوستان میں آریوں کی آمد کے بعد یعنی (تقریبا ۱۵۰۰ قبل مسیح ) سے لے  کر بدھ اور جین کی عام اشارے تک  رہا یعنی (تقریبا ۴۰۰ق مسیح تک  اس مذہبی روایت کو وید مت کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ہے

بدھ مت کی ‏بنیای ‏تعلیمات۔

    بدھ مذہب کی بنیادی تعلیمات حسب ذیل ہے۔ (۱) لوگ آپس میں محبت سے رہیں۔  کسی پر ظلم نہ کریں، یہاں تک کہ جانوروں کو بھی نہ ستائیں۔ (۲) ہر حال میں سچ بولیں۔ (۳) ماں باپ اور استاد کا حق پہچانیں اور انکی عزت و خدمت کریں۔ (۴) پیدائش کی بنا پر کسی شخص کو شریف یا رذیل نہ سمجھیں، کیونکہ یہ فرق صرف اعمال پر موقوف ہے۔ (۵) غریبوں، محتاجوں، اور بے کسوں کی مدد کریں۔ (۶) ہر معاملہ میں میانہ روی اختیار کریں۔ (۷) حلال ذریعہ سے اپنی روزی کمائیں۔ (۸) تپسیا اور برہمنوں کی من گھرت رسموں کے ذریعہ نجات حاصل کرنے کا خیال ترک کریں۔ خلوص نیت سے نیک کام کریں اور دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین کریں۔   بدھ مت کی نشوونما۔       نروان حاصل کرنے کے بعد مہاتما بدھ نے باقی زندگی اپنے نظریات کی تبلیغ واشاعت میں گزار دی۔ جس کے نتیجہ میں شمالی مشرقی ہندوستان میں ان کے ماننے والوں کا ایک بڑا حلقہ پیدا ہو گیا۔ان میں دو طرح کے لوگ شامل تھے۔ایک وہ گروہ تھا جو زندگی کے کاروبار میں شامل رہتے ہوئے گوتم بدھ کی تعلیمات پر چلنے کا عہد کر چکا تھا۔ اسی گروہ کو اپاسک کا نام دیا گیا۔ دوسرا گروہ بھکشوؤں کے نام سے  موسوم تھا۔

رامائن اور ‏مہابھارت ‏کا ‏زمانہ۔

         ۵۰۰ قبل مسیح کے قریب ویدک دور کے ختم ہو نے سے لیکر (۴۰۰ عیسوی) تک کے دور کو رزمیہ نظموں یا رامائن اور مہابھارت کا زمانہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ دور اپنی سیاسی، معاشرتی اور مذہبی خصوصیات کے لحاظ سے ویدک دور سے کافی مختلف اور ممتاز نظر آتا ہے۔اس رزمیہ نظموں کے دور میں ویدک عہد سے مختلف آریائ سماج اور بدلی ہوئ برہمنی روایات کا وجود ملتا ہے۔اس دور کے سماج اور مذہبی رجحانات کا صحیح اور واضح اندازہ انکی دو رزمیہ نظموں رامائن اور مہابھارت سے بخوبی ہو سکتا ہے، یعنی اس دور کے معاشرتی اور مذہبی مطاکے لئے یہ دونوں نظمیں اہم ترین ماخذ ہیں۔

شیو مت

       شیو کے بارے میں خیال ہیکہ یہ ہندوستان کے قدیم ترین دیوتاؤں میں سے ہیں۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب سے متعلق کو آثار قدیمہ ملے ہیں ان میں ایسی مہریں ملی ہیں جن پر شیو کی خصوصیات رکھنے والے ایک دیوتا کی شبیہہ نقش ہے۔اس بنا پر سمجھا گیا ہیکہ شیو یا اس سے ملتے ملتے ایک دیوتا کی پرستش آج سے ساڑھے پانچ ہزار سال قبل بھی ہندوستان میں ہوتی تھی۔ ابتدائ ویدک ادب کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ آریہ بھی اپنے ساتھ ہندوستان میں ایک ایسے دیوتا کا تصور لے کر آئے تھے۔جس کی خصوصیات بہت حد تک قدیم ہندوستانی دیوتا شیو سے ملتی جلتی تھیں۔ کو"ردر" کے نام سے مشہور تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آریوں اور ہندوستان کے قدیم باشندوں کے باہمی اختلاط کے نتیجہ میں محسوس کیا گیا کہ "ردر" اور ہندوستان کا شیو ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں۔ یہی وجہ تھی کے ویدک دور کے آخر میں" ردر شیو" نام کا ایک دیوتا منظر عام پر ملتا ہے۔ جس میں شیو اور ردر کی شخصیتیں جذب کو گئ ہیں، اور کو دونوں کے خصوصیات کا حامل ہے۔ ویدک ادب سے گزر کر جب رزمیہ نظموں کا دور آیا تو مہابھارت میں پہلی بار شیو اپنی الگ خصوصی

وشنو مت

         ابتدائ ویدک ادب میں وشنو ایک اہم اہمیت والے دیوتا کی حیثیت سے سامنے آیا، اپنی اصلیت کے لحاظ سے یہ ایک آرین دیوتا ہے۔  ویدک دور کے آخر میں وشنو کی اہمیت بتدریج بڑھنے لگی تھی، یہاں تک کہ ویدک دور کے آخر تک وہ خدائے مطلق کا مقام حاصل مت چکا تھا۔           وشنو کی مقبولیت کی تاریخ میں دوسرا اہم موڑ اس وقت آیا کہ جب وشنو کو کرشن واسو دیو کی شخصیت سے ملا دیا گیا، اور پھر تیسری صدی قبل مسیح تک وشنو نارائن جو ۵۰۰  قبل مسیح سے پہلے کا ایک دیوتا ہے۔ اور کرشن واسو دیو کو ایک دیوتا تسلیم کر لیا گیا۔ کرشن واسو دیو ایک غیر آریائ قوم یا دو قبائلی دیوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یادوؤں کے علاوہ دوسرے ہندوستانی عوام بھی کرشن واسو دیو کے حلقۂ اثر میں آتے جارہے تھے۔ وشنو نارائن اور کرشن واسو دیو کا انضمام دونوں فریقوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوا۔ برہمنی مت جو بدھ مت اور جین مت کی عوامی مقبولیت سے پریشان ہو کر عوام میں رسوخ حاصل کرنے کے لئے بے چین تھا، اسے کرشن واسو دیو میں ایک ایسا عوامی دیوتا مل گیا جسے وشنو کے اوتار کی صورت میں اپنا کر غیر آریا عناصر کو بھی برہمنی حلقۂ اثر میں آس

رامائن

رامائن ایک شخصیت یعنی رسم چندر جی اور ان سے متعلق لوگوں کے بارے میں ایک مربوط قصہ ہے۔ مہابھارت کے مقابلہ میں یہ زیادہ ترقی یافتہ، مذہب اور با اخلاق معاشرہ کی عکاسی کرتی ہے، اسی لئے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ رامائن کے مرکزی واقعات مہابھارت کے بعد کے دور سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن عام طور پر رامائن کو مہابھارت کے مقابلہ میں زیادہ قدیم تصویر کیا جاتا ہے۔ مختصرا یہ کہا جائے سکتا ہیکہ مہابھارت اور رامائن، دونوں ہی شاہکار آریہ اور غیر آریہ ہندستانی عناصر کی آمیزش سے ابھرتے ہوئے اور برہمنی مت کے زیر سایہ پرسان چڑھتے ہوئے ، ہندو مذہب کے ابتدائ دور کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ یعنی ہندو مذہب کے ارتقاء کے ایک ہی دور کی داستان سناتے ہیں۔ مہابھارت اور رامائن اس وقت وہ سب سے قدیم اور اہم مانا ہیں جن میں ہندو مت کے اہم فرقوں مثلا" "وشنومت" "شیومت" اور شکتی مت، کے علاوہ دیگر بہت سے دیوی دیوتاؤں کا واضح اور بھر پور تذکرہ ۔لتا ہے۔ مہابھارت کا ہی ایک حصہ اس مشہور ومعروف فلسفیانہ وعظ پر مشتمل ہے جو بھگوت گیتا کے نام سے مشہور ہے۔ بھگوت گیتا، جس کو شری کرشن جی کے بیاں کے پیرایہ می

نئے ‏دیوی ‏دیوتاؤں ‏کا ‏ظہور

دیدک دور کے بر عکس، جس میں کائنات کی فطری اوروں سے متعلق مختلف دیوی دیوتا اہمیت رکھتے ہیں۔ مہابھارت اور رامائن میں کچھ نئے دیوی دیوتا مذہبی زندگی پر چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جیسے " شیو اور وشنو کو ، تری مورتی، کے نام سے بھی ہمارا جاتا ہے۔           برما اور وشنو اگر چہ ویدک ادب میں بھی مذکور ہیں۔ مگر مہابھارت اور رامائن میں انکی حیثیت میں نمایاں تبدیلیاں ملتی ہیں۔ برہما، جسے ویدک ادب کے آخری دور میں سب سے عظیم دیوتا کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔رامائن اور مہابھارت میں صرف کائنات کی تخلیق کے ذمہ دار دیوتا کی حیثیت رکھتا ہے۔ وشنو اور شیو کے مقابلہ میں برہما اپنا ویژن بدستور کھوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ عوام کی عقیدت کے اصل مرکز اور مذہبی عظمت کے اصل حقدار وشنو اور شیو چمکتے رہ جاتے ہیں۔       ،تری مورتی، کے تصور میں اگر " برہما"  کائنات کی تخلیق کا ذمہ دار ہے تو کائنات کی بقاء اور پرورش کی ذمہ داری وشنو کے سر ہے۔جس کی شخصیت کی تصور میں جمال کا پہلو غالب  معلوم ہوتا ہے۔        شیو اپنی وفات کے لحاظ سے دیوتا ہے۔ وشنو کو اگر جمال کا مظہر سمجھا جائے تو " شیو" ا

بدھ مت‏

          دنیا کی مذہبی تاریخ میں چھٹی صدی عیسوی قبل مسیح کا زمانہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس دور میں ایسی کئ شخصیتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے دینا کی مذہبی تاریخ میں انقلاب پیدا کر دیا۔ ہندوستان میں اس صدی کے دوران جین مت اور بدھ مت جیسے دو بڑے مذاہب نے جنم لیا۔ بدھ مت کو اس وقت ایشیا کے بہت سے ممالک کی اکثریت کا مذہب ہے۔ یہ کبھی اپنے ماننے والوں کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا مذہب رہ چکا ہے۔ جس کے دائرۂ اثر میں ایشیا کا پورا بر اعظم شامل تھا۔ اس وقت جاپان، کوریا، منچوریا، منگولیا، چین، ویت نام، تھائ لینڈ، برما، تبت، نیپال اور سری لنکا میں یہ ایک زندہ مذہب کی طرح پھل پھول رہا ہے۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہی کہی جائیگی کہ جو مذہب ہندوستان میں پیدا ہوا، وہ آج اپنے ہی وطن میں ایک زندہ مذہب کی حیثیت سے تقریبا ناپید ہے۔ بہر حال بدھ مذہب ہندوستان سے نکل کر جہاں جہاں بھی گیا، اپنے ساتھ اس ملک کی تہذیب کے بعض عناصر کو بھی لیتا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی قدیم تہذیب وتمدن کے نشانات مشرق بعید، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے مقامی تمدن ۔میں جھلکتے نظر آتے ہیں۔           گوتم بدھ کے

ہندوستان میں بدھ مت کی ترقی اور اس کا زوال

  بدھ مت میں بعد کے دور میں کچھ اعتقادی تبدیلیاں عمل میں آئیں۔ ان میں سب سے اہم تبدیلی یہ تھی کہ بدھ کو الوہیت کا درجہ دیا گیا۔ (۱)  مہایان ( شمالی بدھ مت) (۲) ہنایان (جنوبی بدھ مت) کو خاص اہمیت حاصل ہوئ۔مہایان گروہ نے بدھ کو آدم بدھ کا درجہ دیا جو بدھوں میں سب سے اول سب سے زیادہ طاقتور اور یکتا ہے۔ لیکن ہنایان گروہ خود گوتم بدھ کا خدا درجہ دیدیا۔ مہایان فرقہ ابتدا سے ایک توحیدی مذہب تھا جو تمام دیوی دیوتاؤں کو ایک بالاتر طاقت کا محکوم قرار دیتا تھا اور خدا کو علت العلل اور کائنات کا اصول اول قرار دیتا تھا۔ اس اصول کے مطابق علت کو دھرم کایا کے نام سے موسوم کیا گیا جو قانون کے ہم معنی ہے۔ مہایان بدھ مت کے نظریہ کی رو سے یہ قانون دھرم کایا گوتم بدھ کی صورت میں مجسم ہوا اور گوتم بدھ انسانوں کے ساتھ متحد اور تمام انسان ان کے اندر متحد ہیں۔       بدھ مذہب میں کیونکہ تعلیمات عوامی زبان میں تھیں اس لئے انہیں سب لوگ سمجھ سکتے تھے۔ اس کے بر خلاف برہمنی مذہب کی تعلیمات سنسکرت میں تھیں۔ جنہیں لوگ نہیں سمجھ سکتے تھے۔ دوسرے یہ کہ مہاتما بدھ نہایت مخلص شخص تھے اور سب کی بھلائ چاہتے تھے۔ اس کے بر خل

جین مت کا ‏ارتقاء ‏اور ‏فرقہ ‏بندی۔

     مہاویر جین کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے ان کے تبلیغی جذبہ کو زندہ رکھا اور جلد ہی جین مت اجین اور منڈ اسر تک پہنچ گیا۔ ان کے جانشینوں نے شمال میں نیپال اور جنوب میں میسور کا سفر کیا اور وہاں جین مت کا ایک مرکز قائم کیا۔ اسی کے بعد جنوبی ہندوستان میں جین مت کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مشرق میں اڑیسہ کے حکمران راجہ کھارومل نے جین مت قبول کرنے کے بعد جین مت کی اشاعت میں بھر پور تعاون دیا۔ اشوک کے پوتے راجہ سمپراتی نے جین مت کی ترقی میں وہی سرگرمی دکھائ جو اس کے دادا اشوک نے بدھ مت کی ترقی میں دکھائ تھی۔              پہلی صدی قبل مسیح میں مشرقی ہندوستان کے مقابلہ میں جین مت مغربی ہندوستان میں کلک آچاریہ کے ذریعہ فروغ پانے میں کامیاب ہو گیا۔ شمال میں مسلم حکومت کے قیام کے وقت تک جنوبی ہندوستان میں جین مت کے عروج کا دور رہا۔ ساتویں صدی کے بعد جینی اثر جنوب مغرب سے گجرات میں داخل ہو کر ترقی کرتا ہوا راجستھاں میں داخل ہو پھلا پھولا۔ اس دور میں جین مت کے وہ رہنما پیدا ہوئے جن کے ذریعہ جین مت کے مذہبی، فکری اور روحانی ارتقاء کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ بارہویں صدی میں جین مت