نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ہندو مت میں فرقہ ‏بندی ‏کا ‏آغاز۔

ہندو مت کے جو مذہبی رجحانات مہابھارت اور رامائن میں ملتے ہیں۔ موجودہ دور کے ہندو مذہب کی بنیاد انہیں مذہبی رجحانات اور رسومات پر مبنی ہے۔ یہ عقائد و رسومات پرانوں کے عہد میں بانٹا عروج پر تھے۔

       پران ہندو روایات کی سب سے مقدس ارو آخری تصانیف ہیں جو ہندو دیو مالائ عناصر کے ذریعہ مذہبی اور کو پایے استقامت بخشتی ہیں۔ دور قدیم میں پرانوں کے لئے عناصر خمسہ کو ضروری قرار دیا گیا تھا، کیونکہ انک حیثیت بنیاد کی سمجھی گئ تھی، لیکن بعد کے پرانوں میں ان اصولوں کی پابندی بہت لم نظر آتی ہے۔ ہندو مت عہد وسطی تک پوری طرح فرقوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔یہ تقسیم اچانک نہیں تھی، بلکہ رزمیہ نظموں کے عہد سے ہی اس کا آغاز ہو چکا تھا۔ برہما، وشنو اور مہیش جنہیں" تری مورتی" کہا جاتا ہے۔کے ساتھ ساتھ ایک دیوی ماں بھی منظر عام پر آکر غیر معمولی مقبولیت کی حامل بنیں، جب کے برہما عوام کے ذہنوں کو مسخر کرنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا، اتنا ضرور ہے کہ برہما کی حیثیت ہندو دینیات میں مستند و معروف دیوتا کی ہے۔سوائے برہما کے مندرجہ بالا سبھی دیوتاؤں کے نام پر ہندو مت میں فرقے وجود میں آئے۔ ہندو مت در اصل برہمنی مت ہی کی توسیع کا نام ہے ان فرقوں کی تعمیر اور نشوونما، ہندو مت کے عظیم دیوتاؤں کا وجود میں آنااور پھر عوام میں قبولیت کی سند حاصل کرنا ان سب کاموں میں ایک لمبا عرصہ لگا عہد وسطی کی تاریخ در حقیقت انہیں فرقوں کے آغاز و عروج کی داستان کے بجز اور کچھ نہیں۔

        قدیم برہمنی اور ویدک دھرم میں جو فرق تھا اس کے بارے میں صرف اتنا اشارہ کر دینا کافی سمجھتا ہوں کہ ویدک رسومات یعنی یگیہ یا قربانی کو قدیم برہمنی مت میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ جب کے نئے ہندو مت میں یگیہ (قربانی)کو بالکل ہی ختم کر دیا گیا۔ حد تو یہ ہیکہ وشنو مت قربانی سے اس قدر متنفر ہوا کہ قربانی کی مخالفت کرنا ا نکے یہاں ایک فریضہ سمجھا جانے لگا۔

        ویدک دھرم میں قربانی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور یہ فریضہ برہمنوں کے ذریعہ ہی صحیح طور پر ادا ہو سکتا تھا۔ مذہبی رسومات صرف قربانی کے ذریعہ ہی ادا ہو سکتی تھیں۔ دیوتا قربانی کے بس میں تھے دیوتا کا قرب حاکر کے کوئ بھی مصیبت و مقصد حاصل کیا کا سکتا تھا۔ قربانی کے مقابلے کسی اور طریقۂ عبادت کی کوئ حقیقت نہ تھی۔جب کہ پوجا کے ذریعہ صرف دیوتا کی عقیدت و محبت ہی حاصل کی کا سکتی تھی۔ ویدک عہد میں برہمنوں کی حیثیت کلیدی تھی۔ برہمن علماء ہی دھرم کے اصول و ضوابط کی ترتیب و ترمیم یا تنسیخ کے ذمہ دار تھے۔ یعنی کوئ بھی عمل جس کا تعلق براہ راست مذہب سے ہو یا زندگی کے کسی شعبے سے ان کے عمل دخل کے بغیر پائے تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔

          جین اور بدھ دھرم نے جب ہندوستان میں تبلیغ و اشاعت کا سلسلہ شروع کیا تو انہوں نے اپنا مرکز و محور ان طبقوں کو بنایا جنہیں برہمنی مت ذلیل اور کم تر سمجھتا تھا۔ لہذا مہاتما بدھ نے جب مساوات کا نعرہ بلند کیا تو لوگ جوق در جوق ان کے پناہ میں آنےلگے اور مختصر سے عرصے میں بدھ دھرم ہندوستان کا ہر دلعزیز مذہب بن گیا۔ سکی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس مذہب کے مبلغین نے اپنا خیال کے اظہار کا ذریعہ مقامی بولیوں کو بنایا کیا تھا۔ جب کہ برہمنی مت کی زبان خالص آریائ یعنی سنسکرت تھی کو کہ اعلی طبقے تک محدود تھی۔ ویدک دھرم اب حاشیہ پر چلا گیا تھا یا یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ برہمنی مت ایک بے نور چرغ بنتا ا رہا تھا۔ بدھ اور جین مت سے محصور برہمنی مت آخر کار یہ سو چنے پر مجبور ہو گیا کہ ہندوستان میں مقبولیت اب اسی حالت میں حاصل ہو سکتی ہے جب کہ اسکی بقاو نشوونما ایک عوامی شکل اختیار کر لے۔

          نئے ہندوستان مت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس کے اندر تمام رسومات ورویات کو سمو لینے کی غیر معمولی صلاحیت موجود تھی، اور یہی اسکی مقبولیت کی ضامن بنی، ہندوستان مت میں شمولیت کے لئے کسی طرح کی کوئ شرط نہیں رکگی گئ تھی۔ کوئ شخص بھی خواہ، وہ کسی قبیلے، کسی ذات، کسی مذہب اور کسی نسل سے متعلق ہو۔ اپنے مذہبی عقائد و رسومات کے ساتھ اس بئے مذہب میں داخل ہو سکتا تھا۔ برہمنی مت کا تعلق براہ راست اعلی طبقے سے تھا جب کہ ہندوستان مت میں تمام طبقات کے لوگ شامل ہونے لگے تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جو پہلے نہ تو اس مذہب سے مستفید ہو سکتے تھے اور نہ ہی برہمنی مت کو انکی ضرورتوں سے کوئ دلچسپی تھی۔ سماج کی وہ ذاتیں جو برہمنی مت میں حقیر سمجھی جاتی تھیں، وہ تمام اس مسلک کے سارے مذہبی معاملات سے ہمیشہ دور رکھے گئے، حقیقت تو یہ ہیکہ ہندوستان مت کا ارتقاء برہمنی مت کے عوامی رنگ اختیار کرنے کی ہی کوشش کا نتیجہ تھی۔

         مہابھارت اور رامائن عہد کے تمام مذہبی عقائد اور سماجی ورویات کی برہمن عالموں نے نہ صرف حوصلہ افزائ ی کی بلکہ انکے ذریعہ برہمنی مت کی تائید اور سند قبولیت بھی بخشی۔

         ہندو مت نے تمام نسلی، قبائلی و مقامی عقائد و رسومات کو جگہ دیکر اپنے دائرے کو اس طرح پھیلایا کہ ہندو مت میں متضاد خیالات و افکار رکھنے والے سبھی لوگ اپنے اپنے دیوتاؤں کے ساتھ اس میں شامل ہوتے گئے، یہی وجہ ہے کہ اس مذہب میں اپنے اپنے دیوتاؤں کے عقیدت رکھنے کے ساتھ ساتھ دوسرے دیوتاؤں کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اپنی ضرورتوں کے واسطے ہر فرقہ اپنے دیوتا کی طرف رجوع کرتا اور اسی کو خالق کائنات سمجھتا ہے۔ اس طرح اس مذہب کی ایک اہم خصوصیت سب دیوتاؤں کی تعظیم و تکریم کا جذبہ تھا۔ ہر ہندو وقتا فوقتا سبھی دیوی دیوتاؤں سے عقیدت کا اظہار کرتا تھا۔ ہر فرقہ اپنے معبود کو معبود حقیقی اور بقیہ دیوتاؤں کو اس کا روپ سمجھتا تھا۔ شیو کے بھگت وشنو اور دیوی ماں کو اس کا اوتار یا شیو کی مختلف صفات کا ظہور سمجھتے ہیں۔ اسی طرح وشنو کے بھگت شیو اور دیوی ماں کو وشنو کی مختلف صفات کا ظہور یا اوتار سمجھتے ہیں۔

          ہندو مت میں ایک خصوصیت یہ بھی پائ جاتی ہے کہ مختلف دیوتا کو مخصوص نسلی اور تہذیبی روایتوں کی دین ہیں۔ ان کے اتہاد سے ہی کسی ایک دیوتا کی تخلیق ممکن تھی۔ اور بعض اوقات کسی ایک دیوتا کی مختلف صفات یا اس کے مختلف مظاہر میں ان دیوتاؤں کا نشان مل سکتا تھا۔ جن کے باہم اتحاد سے اس دیوتا کی شخصیت کی تکمیل ممکن تھی۔

          برہمنی مت میں جہاں خالص آرین ثقافت کی نمائندگی ہوتی تھی وہیں جب ہندو مت نے غیر آریائ قبائل کو جگہ دینا شروع کی تو اس میں برہمن اثرات کے ساتھ ساتھ مقامی قبائل کے مذہبی عقائد و رسومات بھی جگہ پانے لگے۔ پھر بھی ان سب میں برہمنی مت اور ان کے عقائد کو اولیت حاصل رہی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندو مت میں، تری مورتی، کا تذکرہ پہلے کیا جاتا چکا ہے۔ تر یعنی ان تینوں کے نام پر تین فرقے وجود میں آگئے۔

        ہندو مت میں شیو کو بہت اہمیت حاصل ہے جس کی طاقت اور اوصاف کا تذکرہ اکثر وبیشتر لوگوں کی زبانی ہوتا رہتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ مہابھارت اور پرانوں میں بھی اس کے بارے میں بہت ساتھ قصے کہانیاں بھری پڑی ہیں۔ دوسرے دیوتاؤں سے اگر ہم شیو کا موازنہ دوسرے دیوتاؤں سے کریں تو یہ بے شمار ما فوق الفطرت اور متضاد قوتوں کا حامل نظر آتا ہے۔ جہاں ایک طرف اس کو کائنات کی فنا و بقاء کا ضامن کہا جاتا ہے،. اور اسکی شبیہہ بہایت پر ہیبت، گلے میں سانپ، جسم پر شیر کی کھال، انسانی کھونپریوں کی مالا کے ساتھ پر غضب نظر آنے والی ہے۔ وہیں دوسری طرف وہ مقدس پاکیزہ اور خوبصورتی کی شبیہہ والی ایک ذات بھی تصور کی جاتی ہے۔وہ انسانوں کی طرح خاندان رکھتا ہے۔ غیب کے رازوں سے واقف اور حاضر و ناظر ہے۔ تصویروں میں وہ ایک مراقب اور تپسوی نظر آتا ہے۔ شیو کی شبیہہ مقبول عام ہے۔ رقص و موسیقی کا دلدادہ، نرم دل اور اپنے بھگتوں کی مرادیں پوری مت نے والا ہے۔ شیو مت پرستار، شیو مت، کے علمبردار کے طور پر مشہور و معروف ہیں۔ 

        ویدک عہد کے آخر میں وشنو نارائن، کرشن اور واسو دیو کی شخصیتوں کے باہم اتصال سے عوام کا ہر دلعزیز دیوتا بن گیا۔ اس طرح انہیں ایک ایسا عوامی دیوتا مل گیا۔ جس سے ہندو مت میں آریائ عناصر کی شمولیت کا دائرے وسیع ہوتا گیا۔ 

       مہابھارت کے قصے میں جہاں کرشن کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے، وہیں کرشن واسو دیو کے معتقدین میں وحدانیت اور عشق حقیقی اور سچی عقیدت پر زور دیا گیا ہے۔ بھگوت گیتا، ایک غیر معمولی اور لافانی تصنیف ہے۔ جس نے وشنو تحریک کو مزید تقویت بخشی۔

      اس مت کی دوسری اہم تصنیف بھگوت پران، آٹھویں صدی عیسوی میں تصنیف کی گئ جس سے کرشن کی زندگی پر تفصیل سے روشنی پڑتی ہے۔ کرشن واسو دیو کی والہانہ عقیدت میں جہاں تصور کی بنیاد پڑی وہیں شمال و جنوب میں بے شمار فلسفیانہ تصانیف عالم وجود میں آئیں۔ نیز شمالی ہندوستان کے عوام نے والہانہ بھگتی کے اس رجحان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جس نے وشنو مت کے عقیدت مندوں مت ذریعہ فروغ پایاتھا۔ اور پھر وشنو مت کی شکل ہندوستان کے کو نے کو نے میں پھیل گئ یہاں تک کہ وشنو مت کو وہ مقبول کے حاصل ہوئ کہ وہ ہندو مت کا غالب ترین فرقہ بن گیا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جین ‏مت

    جین مت کے اپنے عقیدہ کے مطابق، یہ ایک ابدی مذہب ہے، جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ ہندوستانی روایات میں چونکہ دنیا کی کوئ  ابتداء یا انتہا نہیں ہے۔ لہذا اس اعتبار سے جین مذہب بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔ ہر دور میں وقفہ وقفہ سے ایک بعد ایک چوبیس تیر تھنکر (مصلح) پیدا ہوتے رہے اور اس کے احیاء کا کام انجام دیتے رہے۔ آخری تیر تھنکر مہاویر جین تھے، ان کے بعد اب کوئ اور مصلح نہیں آئے گا۔         تاریخی اعتبار سے اس کے ثبوت موجود ہیں کہ مہاویر جین اس مذہب کے بانی نہیں تھے۔ ہندوستان میں یہ روایت پہلے سے موجود تھی۔خود مہاویر کا خاندان بلکہ انکی پوری برادری جین مذہب کی ہی پیرو تھی۔ مہاویر نے تو سنیاس کے ذریعہ جین مذہب کے مقصد اعلی کو حاصل کیا اور اس مذہب کے سربراہ بن گئے۔ مہاویر نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں جین مت میں جو اصلاحات کیں، اور اس کی اشاعت اور استحکام کے لئے بحیثیت آخری تیر تھنکر جو اقدامات کئے، اسکی بنا پر مہاویر کو وہ اہم مقام حاصل ہوا کہ وہی اس مذہب کے بانی سمجھے جانے لگے۔          مہاویر جین مشرقی ...

جین مت کا ‏ارتقاء ‏اور ‏فرقہ ‏بندی۔

     مہاویر جین کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے ان کے تبلیغی جذبہ کو زندہ رکھا اور جلد ہی جین مت اجین اور منڈ اسر تک پہنچ گیا۔ ان کے جانشینوں نے شمال میں نیپال اور جنوب میں میسور کا سفر کیا اور وہاں جین مت کا ایک مرکز قائم کیا۔ اسی کے بعد جنوبی ہندوستان میں جین مت کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مشرق میں اڑیسہ کے حکمران راجہ کھارومل نے جین مت قبول کرنے کے بعد جین مت کی اشاعت میں بھر پور تعاون دیا۔ اشوک کے پوتے راجہ سمپراتی نے جین مت کی ترقی میں وہی سرگرمی دکھائ جو اس کے دادا اشوک نے بدھ مت کی ترقی میں دکھائ تھی۔              پہلی صدی قبل مسیح میں مشرقی ہندوستان کے مقابلہ میں جین مت مغربی ہندوستان میں کلک آچاریہ کے ذریعہ فروغ پانے میں کامیاب ہو گیا۔ شمال میں مسلم حکومت کے قیام کے وقت تک جنوبی ہندوستان میں جین مت کے عروج کا دور رہا۔ ساتویں صدی کے بعد جینی اثر جنوب مغرب سے گجرات میں داخل ہو کر ترقی کرتا ہوا راجستھاں میں داخل ہو پھلا پھولا۔ اس دور میں جین مت کے وہ رہنما پیدا ہوئے جن کے ذریعہ جین مت کے مذہبی، فکری اور روحانی ارتقاء...

ہندوستان میں بدھ مت کی ترقی اور اس کا زوال

  بدھ مت میں بعد کے دور میں کچھ اعتقادی تبدیلیاں عمل میں آئیں۔ ان میں سب سے اہم تبدیلی یہ تھی کہ بدھ کو الوہیت کا درجہ دیا گیا۔ (۱)  مہایان ( شمالی بدھ مت) (۲) ہنایان (جنوبی بدھ مت) کو خاص اہمیت حاصل ہوئ۔مہایان گروہ نے بدھ کو آدم بدھ کا درجہ دیا جو بدھوں میں سب سے اول سب سے زیادہ طاقتور اور یکتا ہے۔ لیکن ہنایان گروہ خود گوتم بدھ کا خدا درجہ دیدیا۔ مہایان فرقہ ابتدا سے ایک توحیدی مذہب تھا جو تمام دیوی دیوتاؤں کو ایک بالاتر طاقت کا محکوم قرار دیتا تھا اور خدا کو علت العلل اور کائنات کا اصول اول قرار دیتا تھا۔ اس اصول کے مطابق علت کو دھرم کایا کے نام سے موسوم کیا گیا جو قانون کے ہم معنی ہے۔ مہایان بدھ مت کے نظریہ کی رو سے یہ قانون دھرم کایا گوتم بدھ کی صورت میں مجسم ہوا اور گوتم بدھ انسانوں کے ساتھ متحد اور تمام انسان ان کے اندر متحد ہیں۔       بدھ مذہب میں کیونکہ تعلیمات عوامی زبان میں تھیں اس لئے انہیں سب لوگ سمجھ سکتے تھے۔ اس کے بر خلاف برہمنی مذہب کی تعلیمات سنسکرت میں تھیں۔ جنہیں لوگ نہیں سمجھ سکتے تھے۔ دوسرے یہ کہ مہاتما بدھ نہایت مخلص شخص تھے اور سب کی بھلا...