نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نئے ‏دیوی ‏دیوتاؤں ‏کا ‏ظہور


دیدک دور کے بر عکس، جس میں کائنات کی فطری اوروں سے متعلق مختلف دیوی دیوتا اہمیت رکھتے ہیں۔ مہابھارت اور رامائن میں کچھ نئے دیوی دیوتا مذہبی زندگی پر چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جیسے " شیو اور وشنو کو ، تری مورتی، کے نام سے بھی ہمارا جاتا ہے۔ 
         برما اور وشنو اگر چہ ویدک ادب میں بھی مذکور ہیں۔ مگر مہابھارت اور رامائن میں انکی حیثیت میں نمایاں تبدیلیاں ملتی ہیں۔ برہما، جسے ویدک ادب کے آخری دور میں سب سے عظیم دیوتا کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔رامائن اور مہابھارت میں صرف کائنات کی تخلیق کے ذمہ دار دیوتا کی حیثیت رکھتا ہے۔ وشنو اور شیو کے مقابلہ میں برہما اپنا ویژن بدستور کھوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ عوام کی عقیدت کے اصل مرکز اور مذہبی عظمت کے اصل حقدار وشنو اور شیو چمکتے رہ جاتے ہیں۔

      ،تری مورتی، کے تصور میں اگر " برہما"  کائنات کی تخلیق کا ذمہ دار ہے تو کائنات کی بقاء اور پرورش کی ذمہ داری وشنو کے سر ہے۔جس کی شخصیت کی تصور میں جمال کا پہلو غالب  معلوم ہوتا ہے۔

       شیو اپنی وفات کے لحاظ سے دیوتا ہے۔ وشنو کو اگر جمال کا مظہر سمجھا جائے تو " شیو" الوہی طاقت کے قہروجلال کی تجسیم ہے۔ اسکی شخصیت میں صفت بے نیازی، ماورائیت، انفرادیت اور پر اسراریت بدرجہ اتم موجود ہیں۔ وشنو اپنی بے نیازی اور جلال سے دلوں کو ہلاکر لوگوں کے سروں کو اپنے آگے خم کر لیتا ہے۔ وشنو اور شیو کی طرح، کسی نہ کسی صورت میں دیوی ماں کی پرستش بھی ہندو مذہب کا مقبول ترین تصور ہے۔ دیوی ماں کے مظاہر میں" پاروتی" یعنی شیو کی بیوی کی حیثیت" کالی ماں" کی حیثیت، نیز تانترک فرقہ کی دیوی بھیرویں کی حیثیتیں کافی اہم ہیں۔اور کہیں بھوانی کی صورت میں جارئم پیشہ لوگوں کی معبود سمجھی جاتی ہے۔

     وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رزمیہ نظموں کے دور کے ابھرتے ہوئے دیوتاؤں میں" وشنو اور شیو اور دیوی ماں" نے نئے ہندو مت کے عظیم ترین دیوتا کی حیثیت حاصل کرلی، یہی نہیں ان میں سے ہر ایک کے نام پر ہندو مت میں بہت سے فرقے وجود میں آگئے، اور برہما دھیرے دھیرے پس منظر میں چلا گیا۔ عہد وسطی کے ہندو مت کی تاریخ در حقیقت انہیں دیوتاؤں سے وابستہ فرقوں کے نشوونما کی داستان ہے۔ اسی لئے رزمیہ نظموں کے بعد کے ابھرنے والے مذہب کو نیا ہندو مت یا فرقہ بندیوں کا ہندو مت کہا جا سکتا ہے۔

      ویدک رسومات میں قربانی یا یگیہ کو جو مرکزی حیثیت حاصل تھی، وہ نئے ہندو مت میں ختم ہو گئ، بلکہ وشنو مت متو تو اسکی مخالفت کی گئ اور اسکی جگہ ہونا کو ایک مرکزی مذہبی رسم کا درجہ حاصل ہو گیا۔

       اس نئے ابھرتے ہوئے ہندو مت کی ایک بڑی خصوصیت، جو اس کی مقبولیت اور نشوونما کا بڑا سبب بنی، وہ اسکی مختلف روایتوں کو اپنے افکار و رسومات سمو لینے کے صلاحیت تھی۔ اس کے بر خلاف قدیم برہمنی مت پر مکمل طور پر برہمنوں کی جارہ داری تھی۔اس میں آنے والی ہر تبدیلیاں کے لئے برہمن ہی ذمہ دار تھے۔ اس مت کا دائرۂ عمل صرف سماج کے اعلی طبقہ تک محدود تھا، سماج کے درمیانی اور نچلے طبقے نہ تو اس سے باہ راست استفادہ کر سکتے تھے اور نہ ہی برہمن مت کو انکی مذہبی ضرورتوں سے کوئ دلچسپی تھی، یعنی یہ صرف برہمن طبقہ کا ہی مذہب بن کر رہ گیا تھا۔

        ہندو مت اس کے بر خلاف ایک عوامی مذہب تھا۔ اس کے عقائد و رسومات سب کے سب اس طرح کے تھے جو عوام کی مذہبی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک عرص تک ہندستان میں بدھ مت ارو جین مت کے غلبہ کے بعد، ہندو مت کا ارتقاء برہمنی مت کو ایک عوامی رنگ دینے کی کوشش کہا جائیگا، اسلئے کہ ان حالات میں برہمنی مت نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب ہندستان میں اس کی بقا اور نشوونما ایک عوامی رنگ اختیار کرنا پر ہی منحصر ہے۔ یہی وجہ کہ رامائن اور مہابھارت میں ابھرتے ہوئے عوامی عقائد و رسومات کی ہمت افزائ خود برہمن عالموں نے کی نیز انکی ترقی اور نشوونما میں بھر پور حصہ لیا اس لئے ہندو مت برہمنی مت سے مختلف ہونے کے باوجود برہمنی مت کا سارے یا جانشیںن تسلیم کیا گیا۔ خود ہندو روایت کے عقیدے کے مطابق وہ وید اور برہمنی روایات کے کے تسلسل کا ہی نام ہے، اسی لئے ہر ہ دو عقیدے اور رسم کی سند، ویدک ادب سے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہیکہ ویدوں کا تعلق ہندو مت سے حقیقی کے چھائے رسمی زیادہ یے۔ کیونکہ ہندو روایت کا ارتقاء ہی ویدوں کے تسلط سے آزاد رہ کر ہوا ہے۔
 
 (ماخوذ، دنیا کے بڑے مذاہب صفحہ نمبر ۴۳)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جین ‏مت

    جین مت کے اپنے عقیدہ کے مطابق، یہ ایک ابدی مذہب ہے، جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ ہندوستانی روایات میں چونکہ دنیا کی کوئ  ابتداء یا انتہا نہیں ہے۔ لہذا اس اعتبار سے جین مذہب بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔ ہر دور میں وقفہ وقفہ سے ایک بعد ایک چوبیس تیر تھنکر (مصلح) پیدا ہوتے رہے اور اس کے احیاء کا کام انجام دیتے رہے۔ آخری تیر تھنکر مہاویر جین تھے، ان کے بعد اب کوئ اور مصلح نہیں آئے گا۔         تاریخی اعتبار سے اس کے ثبوت موجود ہیں کہ مہاویر جین اس مذہب کے بانی نہیں تھے۔ ہندوستان میں یہ روایت پہلے سے موجود تھی۔خود مہاویر کا خاندان بلکہ انکی پوری برادری جین مذہب کی ہی پیرو تھی۔ مہاویر نے تو سنیاس کے ذریعہ جین مذہب کے مقصد اعلی کو حاصل کیا اور اس مذہب کے سربراہ بن گئے۔ مہاویر نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں جین مت میں جو اصلاحات کیں، اور اس کی اشاعت اور استحکام کے لئے بحیثیت آخری تیر تھنکر جو اقدامات کئے، اسکی بنا پر مہاویر کو وہ اہم مقام حاصل ہوا کہ وہی اس مذہب کے بانی سمجھے جانے لگے۔          مہاویر جین مشرقی ...

جین مت کا ‏ارتقاء ‏اور ‏فرقہ ‏بندی۔

     مہاویر جین کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے ان کے تبلیغی جذبہ کو زندہ رکھا اور جلد ہی جین مت اجین اور منڈ اسر تک پہنچ گیا۔ ان کے جانشینوں نے شمال میں نیپال اور جنوب میں میسور کا سفر کیا اور وہاں جین مت کا ایک مرکز قائم کیا۔ اسی کے بعد جنوبی ہندوستان میں جین مت کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مشرق میں اڑیسہ کے حکمران راجہ کھارومل نے جین مت قبول کرنے کے بعد جین مت کی اشاعت میں بھر پور تعاون دیا۔ اشوک کے پوتے راجہ سمپراتی نے جین مت کی ترقی میں وہی سرگرمی دکھائ جو اس کے دادا اشوک نے بدھ مت کی ترقی میں دکھائ تھی۔              پہلی صدی قبل مسیح میں مشرقی ہندوستان کے مقابلہ میں جین مت مغربی ہندوستان میں کلک آچاریہ کے ذریعہ فروغ پانے میں کامیاب ہو گیا۔ شمال میں مسلم حکومت کے قیام کے وقت تک جنوبی ہندوستان میں جین مت کے عروج کا دور رہا۔ ساتویں صدی کے بعد جینی اثر جنوب مغرب سے گجرات میں داخل ہو کر ترقی کرتا ہوا راجستھاں میں داخل ہو پھلا پھولا۔ اس دور میں جین مت کے وہ رہنما پیدا ہوئے جن کے ذریعہ جین مت کے مذہبی، فکری اور روحانی ارتقاء...

جین مت کے پانچ بنیادی عہد

          (۱) اہنسا، (عدم تشدد)  (۲) ستیہ، (راست گفتاری) (۳) استیہ، (چوری نہ کرنا) (۴) برہمچریہ ( پاک دامنی) (۵) اپری گرہ (دنیا سے بے رغبتی)۔ ان پانچ بنیادی عہدوں کے علاوہ گھر بار رکھنے والے جینیوں کو سات اور عہد کرنے ہوتے ہیں، جو انہیں بنیادی عہدوں پر عمل کرنے مین معاون ہوتے ہیں۔          جین مت میں وہ جماعت جو جین سنگھ کہلاتی ہے، اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ مردوں کو سادھو اور عورتوں کو سادھوی کہا جاتا ہے۔ دونوں کو برہمچریہ کی بہت سخت پابندی کرنی ہوتی ہے۔ مردوں اور عورتوں کی جماعتیں کے نظام الگ الگ ہوتے ہیں۔ سنیاس کی ابتداء جین مت کے پانچ بنیادی عہدوں کی شکل میں لینے سے ہوتی ہے۔ پھر تمام دنیا سے ناطہ توڑ کر بے رغبتی کے ساتھ چند ضروری چیزوں کے علاوہ سب کچھ چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ مرد سادھو بغیر سلے تین کپڑے اور عورتوں کو چار کپڑے پہننے کی اجازت ہے۔ یہ اجازت بھی صرف شؤتامبر فرقہ کے سادھوؤں کو حاصل ہے۔ اس لئے کہ دگامبر فرقہ کے سادھو تو بالکل ننگے رہتے ہیں اس فرقہ میں عورتوں کو سنیاس لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے ع...