نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بدھ مت‏

          دنیا کی مذہبی تاریخ میں چھٹی صدی عیسوی قبل مسیح کا زمانہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس دور میں ایسی کئ شخصیتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے دینا کی مذہبی تاریخ میں انقلاب پیدا کر دیا۔ ہندوستان میں اس صدی کے دوران جین مت اور بدھ مت جیسے دو بڑے مذاہب نے جنم لیا۔ بدھ مت کو اس وقت ایشیا کے بہت سے ممالک کی اکثریت کا مذہب ہے۔ یہ کبھی اپنے ماننے والوں کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا مذہب رہ چکا ہے۔ جس کے دائرۂ اثر میں ایشیا کا پورا بر اعظم شامل تھا۔ اس وقت جاپان، کوریا، منچوریا، منگولیا، چین، ویت نام، تھائ لینڈ، برما، تبت، نیپال اور سری لنکا میں یہ ایک زندہ مذہب کی طرح پھل پھول رہا ہے۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہی کہی جائیگی کہ جو مذہب ہندوستان میں پیدا ہوا، وہ آج اپنے ہی وطن میں ایک زندہ مذہب کی حیثیت سے تقریبا ناپید ہے۔ بہر حال بدھ مذہب ہندوستان سے نکل کر جہاں جہاں بھی گیا، اپنے ساتھ اس ملک کی تہذیب کے بعض عناصر کو بھی لیتا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی قدیم تہذیب وتمدن کے نشانات مشرق بعید، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے مقامی تمدن ۔میں جھلکتے نظر آتے ہیں۔

          گوتم بدھ کے پیدائش کے وقت تک ملک میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں، جن میں کچھ جمہورتیں اور کچھ بادشاہتیں تھیں شمالی ہندوستان میں موجودہ نیپال اور اتر پردیش کی سرحد پر واقع شاکیہ نامی ایک جمہوری ریاست تھی۔ اس ریاست پر ایک سورج ونشی چھتری خاندان حکومت کرتا تھا۔ جس کی سرداری (سدودھن) نامی ایک شخص کے ہاتھ میں تھی، یہی سدودھن گوتم بدھ کے والد تھے۔

        ۵۶۳ق م  میں سدودھن کے یہاں گوتم بدھ کی ولادت ہوئ گوتم بدھ کا اصلی نام سدھارتھ تھا۔ ایک جوتشی نے ان کے والد کے دربار میں پیشین گوئ کی تھی کہ یہ بچہ بڑا ہو کر یا تو ایک مشہور سنیاسی بنے گا یا ایک بڑا بادشاہ۔ اس پیشین گوئ کے بعد ایک محفوظ محل میں سدھارتھ کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا گیا۔ اور اس وقت کے رائج ہر ایسے خیال اور اثر سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی گئ جو سنیاس یا ترک دنیا کی طرف راغب کر سکتے تھے۔ اس محفوظ محل میں سدھارتھ کی تعلیم و تربیت کے لئے بنوایا گیا تھا، سیروتفریح اور دل بہلانے کے سارے انتظامات کے ساتھ شہزادہ سدھارتھ کی پرورش شروع ہوئ۔

          راجا سدودھن نے ہر ممکن کوشش کے ذریعہ شہزادے کو رنگ رلیوں اور سیروتفریح میی الجھائے رکھنے ہوئے اس وقت کا انتظار کیا کہ جب وہ حکومت کے کاروبار کو سنبھالنے کی عمر تک پہنچ جائے، لیکن شہزادے کو بہلائے رکھنے کی یہ ساری کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔ اس لئے کہ عمر کے ساتھ ساتھ شہزادے کے یہاں غوروفکر، سنجیدگی اور احساس کی تیزی جیسی خصوصیات بڑھتی کا رہی تھیں۔ جو راجا کے لئے تسویش کی باعث تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ سدھارتھ کو مزید پابندیوں میں الجھانے کے خیال سے سولہ سال کی عمر میں ہی ان کی شادی کردی گئ۔ یہ سارے انتظامات اور کوششیں کارگر ثابت نہ ہوئیں۔ ان کے دل میں حقیقت کو جاننے اور زندگی کے راز سر بستہ کھولنے کی آرزو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئ۔ یہاں تک کہ ایک رات وہ رتھ بان کے ہمراہ محل سے باہر نکل گئے، اس لئے کہ محل کی بناؤٹی اور پر تکلف زندگی میں بند رہنا سب سدھارتھ کے لئے نا قابل برداشت ہو گیا تھا۔ اس طرح سدھارتھ کو پہلی بار زندگی کو اس کے حقیقی رنگ میں دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد ان کے ذہن میں ہر طرح کی غلط فہمی دور ہو چکی تھی۔ 

          روایت کے مطابق شہزادے کے راتوں کے اسفار کے دوران ایک بوڑھے۔ ایک بیمار اور ایک جنازے کے مشاہدے نے ان پر زندگی کی بے ثباتی اور ان کا غیر اطمینان بخش ہونا واضح کر دیا۔ ان انکشافات کے بعد ایک سنیاسی کی زیارت نے جس کا پر سکون اور مطمئن چہرہ اس کی اندوزی دولت کی شہادت دے رہا تھا، شہزادے کو زندگی کے گورکھ دھندے سے نجات کی جدوجہد کا راستہ دکھا گیا۔ ان مشاہدات نے شہزادے کی زندگی میں گہری غوروفکر اور ایک داخلی کشمکش بیدار کر دی۔جس کا خاتمہ ان کے یہاں پہلے لڑکے(راہل) کی پیدائش پر ہوا۔ چنانچہ جس دن وہ لڑکا پیدا ہوا اسی رات دیر گئے اپنے بیٹے اور بیوی پر آخری نظر ڈال کر اپنے رتھ بان کے ہمراہ رتھ پر سوار ہوکر شہر سے جنگل کی طرف نکل گئے۔ اپنے تمام ملبوسات اور شاہی لوازمات رتھ بان کے سپرد کر فقیرانہ لباس زیب تن کیا اور جنگل کی تاریکیوں میں گم ہو گیا اس وقت گوتم کی عمصرف ۲۹ ڈال تھی۔ 

       سنیاسی اختیار کرنے کے بعد گوتم نے روحانی تشنگی کو مٹانے کے لئے سب سے پہلے اس وقت کے رائج علوم کا سہارا کی نے کی کوشش کی، اس وقت کے بہت سے مشہور علماء سے رابطہ قائم کیا، اور ان علماء سے تمام معلومات حاصل کرنے کے بعد بھی ان کو تسلی نہ ہو سکی تو انہوں نے عالموں سے رجوع کرنے کا سلسلہ ختم کر دیا۔ اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے کسی اور طریقے کی تلاش میں ادھر ادھر گھومنے لگے۔ اور اس وقت کی رائج جسمانی ریاضتوں کے طریقوں کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد ان کی زندگی میں سخت جسمانی ریاضتوں کا دور شروع ہوا جسے انہوں نے انتہا تک پہنچادیا۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب وہ گھومتے گھومتے موجودہ گیا کے پاس اراویلا نامی مقام پر پہنچے جہاں انہوں نے اتنی سخت جسمانی ریاضتیں کیں کہ ان کا جسم ہڈیوں کا پنجرہ بن گیا، یہاں تک کہ وہ کرنے کے قریب ہو گئے، یہ جسمانی ریاضتوں کا طریقہ بھی ان کے گوہر مقصود کو پانے کا وسیلہ بن سکا،اور زندگی کا راز ان کے لئے ایک معمہ ہی بنا رہا، اور ابدی مسرت کے حصول میں وہ ناکام رہے چنانچہ اپنی سنیاسی زندگی کو ایک چرواہن کی کھیر کھاکر ختم کرتے ہوئے یہ فیصلہ کر لیا کہ نجات کا راستہ صرف ایک معتدل زندگی کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتا ہے، اس فیصلہ کے بعد ایک پیپل کے پیڑ کے نیچے وہ یہ تہیہ کر کے بیٹھ گئے کہ جب تک وہ ابدی مسرت کے راز کو نہ پالینگے یہاں سے نہ اٹھیں گے، چنانچہ یہ عہد کر کے وہ اپنے مراقبہ میں غرق ہو گئے۔

        آدھی رات کے قریب ان پر ان چار حقائق کا انکشاف ہوا جن میں بدھ مت کا بنیادی فلسفہ پوشیدہ ہے۔ یعنی سدھارتھ نے اپنے مراقبہ ہی کے آخر نروان (نجات) حاصل کر لیا۔ اور اس طرح وہ گوتم بدھ بن گئے کیونکہ سب ان کو ابدی مسرت مل گئ تھی۔ زندگی کے مسئلہ کا حل انہیں مل گیا تھا اور ان کی ہر خلش دور ہو گئ تھی۔ نروان حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ گوتم بدھ اسی جگہ مقیم رہ کر، جہاں غوروفکر کے ذریعہ اپنے اعلی روحانی مقام کو مستحکم کر رہے تھے۔ وہیں ان کے سامنے یہ مسئلہ بھی پریشان کن تھا کہ آیا وہ حاصل شدہ نروان پیدا شدہ اعلی کیفیات  سے خود ہی لطف اندوز ہوتے رہیں یا دنیا کے لوگوں کو بھی اس راہ نجات سے با خبر کریں تاکہ وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے موت و زندگی کے پھندے سے آزاد ہو سکیں، ایک طویل کشمکش کے بعد گوتم بدھ کو کامیابی ملی اور وہ اس ہمدردی کے ناتے جو انکی تعلیمات میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ دینا میں اپنے خیالات کی تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوئے، انکی تعلیمات کو قبول کرنے والوں میں سماج کے ہر طبقہ اور ہر ذات کے لوگ شامل تھے۔

        انکی تعلیمات اور خیالات کو دیکھنے کے بعد برہمنی مت کی طرف سے ان کی تحریک پر کفر کا فتوی لگا۔ اور اسے ایک ملحدانہ (ناستک) فرقہ قرار دیا گیا۔ گوتم بدھ کی تعلیمات کی مقبولیت میں ان کے انقلابی رویہ کا بڑا دخل تھا۔  نروان حاصل کرنے کے بعد زندگی کے باقی ۴۵ سال گوتم بدھ نے اپنی تعلیمات کی تبلیغ میں شمالی ہندوستان اور اس کے مشرقی حصہ میں گھوم کر گزارے۔ اس دوران ان کے ماننے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئ، جن میں مرد عورت یعنی اپاسک (گھر یا رواج) بھکشو اور بھکشنیاں سب ہی شامل تھے۔ اس طرح ان کا قائم کردہ ،سنگھ، خوب پھلا پھولا اس میں خود ان کا بیٹا، بیوی اور ماں جس نے انکی پرورش کی تھی۔ سب ہی شامل ہو گئے تھے۔ آخر کار ۸۰ سال کی عمر میں گوتم بدھ کا آخری وقت آگیا اور وہ ان الفاظ کے ساتھ،، بھکشوو!  اب اس کے علاوہ مجھے تم سے اور کچھ نہیں کہنا ہے ۔کہ جو کچھ عناصر کی ترتیب سے ظہور میں آیا ہے، اس کے لئے فنا مقدر ہے، جی جان سے نروان(نجات)  کے لئے کوشش کرلو،، گوتم بدھ دینا سے رخصت ہو گئے، اور بدھ عقیدہ کے مطابق انہوں نے مہا پڑی نروان حاصل کر لیا۔

ماخوذ اس دنیا کے بڑے مذاہب صفحہ نمبر(۸۳)

      

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

How can a man convince a woman that he loves her immensely?

There are many ways a man can convince a woman that he loves her immensely. Here are some suggestions: Communication: Communication is key in any relationship. Express your feelings openly and honestly. Tell her how much she means to you and how much you love her. Actions speak louder than words: Words are great, but actions carry more weight. Show her how much you love her by doing things that make her happy. Small gestures like bringing her favorite food, helping her with something she needs, or surprising her with a thoughtful gift can go a long way. Be present: Be present in the moment and pay attention to her. Show her that she has your undivided attention when you are together. Put away your phone or other distractions and focus on her. Respect her: Respect her opinions, feelings, and decisions. Be supportive of her and encourage her to pursue her dreams and aspirations. Be patient: Love takes time and patience. Don't rush her into anything or pressure her to feel a certain w

شکوہ جواب شکوہ

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے۔ کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے۔

شکوہ جواب شکوہ

ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں۔ امتی باعپ رسوائی پیغمبر ہیں،