نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

شیو مت

       شیو کے بارے میں خیال ہیکہ یہ ہندوستان کے قدیم ترین دیوتاؤں میں سے ہیں۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب سے متعلق کو آثار قدیمہ ملے ہیں ان میں ایسی مہریں ملی ہیں جن پر شیو کی خصوصیات رکھنے والے ایک دیوتا کی شبیہہ نقش ہے۔اس بنا پر سمجھا گیا ہیکہ شیو یا اس سے ملتے ملتے ایک دیوتا کی پرستش آج سے ساڑھے پانچ ہزار سال قبل بھی ہندوستان میں ہوتی تھی۔ ابتدائ ویدک ادب کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ آریہ بھی اپنے ساتھ ہندوستان میں ایک ایسے دیوتا کا تصور لے کر آئے تھے۔جس کی خصوصیات بہت حد تک قدیم ہندوستانی دیوتا شیو سے ملتی جلتی تھیں۔ کو"ردر" کے نام سے مشہور تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آریوں اور ہندوستان کے قدیم باشندوں کے باہمی اختلاط کے نتیجہ میں محسوس کیا گیا کہ "ردر" اور ہندوستان کا شیو ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں۔ یہی وجہ تھی کے ویدک دور کے آخر میں" ردر شیو" نام کا ایک دیوتا منظر عام پر ملتا ہے۔ جس میں شیو اور ردر کی شخصیتیں جذب کو گئ ہیں، اور کو دونوں کے خصوصیات کا حامل ہے۔ ویدک ادب سے گزر کر جب رزمیہ نظموں کا دور آیا تو مہابھارت میں پہلی بار شیو اپنی الگ خصوصیات کے ساتھ ایک مکمل شخصیت دیوتا کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یہاں شیو کو اگرچہ ایک عظیم دیوتا کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اور اسکی مخصوص صفات سے متعلق مختلف دیو مالائ کہانیاں بھی بیان کی گئ ہیں۔ تا ہم شیو کی بڑھتی ہوئ مقبولیت کا پتہ اس فرقے کے ذکر سے بھی چلتا ہے۔ کو شیو کو پشو پتی کی شکل میں ماننے والے بھگتوں کا تھا۔ شیو کی شخصیت کو مزید مقبولیت اور ترقی اس وقت ملی جب رزمیہ نظموں کے دور کے بعد پرانوں کی تصنیف کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہندو مت کے دوسرے فرقوں کی طرح شیو کے پرستاروں نے بھی ایسے پرانوں تصنیف کئے جن کا محور ان کا اپنا دیوتا شیو تھا۔اور جن میں شیو مت کے مخصوص نظریات کی تبلیغ شامل تھی۔

        شیو کی کو تصویر مہابھارت اور پرانوں میں بیان کئے گئے قصوں اور تذکروں سے سامنے آتی ہے، وہ متضاد صفات کا ایک مجموعہ نظر آتا ہے۔ایک طرف وہ تری مورتی، میں کائنات کو فنا کرنے والا اسکی بربادی کا ذمہ دار دیوتا تصور کیا جاتا ہے۔، دوسرے طرف متعدد تذکروں میں اسکی پاکیزگی، تقدس اور ذاتی حسن وجمال کی قسم بھی کھائ گئ ہے۔اسے اپنے بھگتوں کی مرادیں پوری کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔تو دوسرے طرف اسے ایک نرم مزاج دیوتا بھی سمجھا گیا ہے، جسے خوش کرنے کے لئے تلسی کے چند پتوں کا نذرانہ ہی کافی ہے۔

      شیو کی شخصیت کے تصور میں تنوع اور اسکی مختلف قسم کی شخصیات کا اس سے اچھی طرح اندازہ کو سکتا ہے کہ ہندو مت میں شیو کی آٹھ صورتیں مستند مانی کافی ہیں، ان آٹھ صورتوں کے مطابق وہ مختلف اوقات یا مختلف حلقوں میں پوجا جاتا ہے۔ https://youtu.be/fqaz-HwF0QQ

   پرتیما بوس، دی ہندو ریلجس ٹریڈیشن، الانڈ پبلیشر (صفحہ نمبر ۴۴-۲۴۳

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جین ‏مت

    جین مت کے اپنے عقیدہ کے مطابق، یہ ایک ابدی مذہب ہے، جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ ہندوستانی روایات میں چونکہ دنیا کی کوئ  ابتداء یا انتہا نہیں ہے۔ لہذا اس اعتبار سے جین مذہب بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔ ہر دور میں وقفہ وقفہ سے ایک بعد ایک چوبیس تیر تھنکر (مصلح) پیدا ہوتے رہے اور اس کے احیاء کا کام انجام دیتے رہے۔ آخری تیر تھنکر مہاویر جین تھے، ان کے بعد اب کوئ اور مصلح نہیں آئے گا۔         تاریخی اعتبار سے اس کے ثبوت موجود ہیں کہ مہاویر جین اس مذہب کے بانی نہیں تھے۔ ہندوستان میں یہ روایت پہلے سے موجود تھی۔خود مہاویر کا خاندان بلکہ انکی پوری برادری جین مذہب کی ہی پیرو تھی۔ مہاویر نے تو سنیاس کے ذریعہ جین مذہب کے مقصد اعلی کو حاصل کیا اور اس مذہب کے سربراہ بن گئے۔ مہاویر نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں جین مت میں جو اصلاحات کیں، اور اس کی اشاعت اور استحکام کے لئے بحیثیت آخری تیر تھنکر جو اقدامات کئے، اسکی بنا پر مہاویر کو وہ اہم مقام حاصل ہوا کہ وہی اس مذہب کے بانی سمجھے جانے لگے۔          مہاویر جین مشرقی ...

جین مت کا ‏ارتقاء ‏اور ‏فرقہ ‏بندی۔

     مہاویر جین کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے ان کے تبلیغی جذبہ کو زندہ رکھا اور جلد ہی جین مت اجین اور منڈ اسر تک پہنچ گیا۔ ان کے جانشینوں نے شمال میں نیپال اور جنوب میں میسور کا سفر کیا اور وہاں جین مت کا ایک مرکز قائم کیا۔ اسی کے بعد جنوبی ہندوستان میں جین مت کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مشرق میں اڑیسہ کے حکمران راجہ کھارومل نے جین مت قبول کرنے کے بعد جین مت کی اشاعت میں بھر پور تعاون دیا۔ اشوک کے پوتے راجہ سمپراتی نے جین مت کی ترقی میں وہی سرگرمی دکھائ جو اس کے دادا اشوک نے بدھ مت کی ترقی میں دکھائ تھی۔              پہلی صدی قبل مسیح میں مشرقی ہندوستان کے مقابلہ میں جین مت مغربی ہندوستان میں کلک آچاریہ کے ذریعہ فروغ پانے میں کامیاب ہو گیا۔ شمال میں مسلم حکومت کے قیام کے وقت تک جنوبی ہندوستان میں جین مت کے عروج کا دور رہا۔ ساتویں صدی کے بعد جینی اثر جنوب مغرب سے گجرات میں داخل ہو کر ترقی کرتا ہوا راجستھاں میں داخل ہو پھلا پھولا۔ اس دور میں جین مت کے وہ رہنما پیدا ہوئے جن کے ذریعہ جین مت کے مذہبی، فکری اور روحانی ارتقاء...

جین مت کے پانچ بنیادی عہد

          (۱) اہنسا، (عدم تشدد)  (۲) ستیہ، (راست گفتاری) (۳) استیہ، (چوری نہ کرنا) (۴) برہمچریہ ( پاک دامنی) (۵) اپری گرہ (دنیا سے بے رغبتی)۔ ان پانچ بنیادی عہدوں کے علاوہ گھر بار رکھنے والے جینیوں کو سات اور عہد کرنے ہوتے ہیں، جو انہیں بنیادی عہدوں پر عمل کرنے مین معاون ہوتے ہیں۔          جین مت میں وہ جماعت جو جین سنگھ کہلاتی ہے، اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ مردوں کو سادھو اور عورتوں کو سادھوی کہا جاتا ہے۔ دونوں کو برہمچریہ کی بہت سخت پابندی کرنی ہوتی ہے۔ مردوں اور عورتوں کی جماعتیں کے نظام الگ الگ ہوتے ہیں۔ سنیاس کی ابتداء جین مت کے پانچ بنیادی عہدوں کی شکل میں لینے سے ہوتی ہے۔ پھر تمام دنیا سے ناطہ توڑ کر بے رغبتی کے ساتھ چند ضروری چیزوں کے علاوہ سب کچھ چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ مرد سادھو بغیر سلے تین کپڑے اور عورتوں کو چار کپڑے پہننے کی اجازت ہے۔ یہ اجازت بھی صرف شؤتامبر فرقہ کے سادھوؤں کو حاصل ہے۔ اس لئے کہ دگامبر فرقہ کے سادھو تو بالکل ننگے رہتے ہیں اس فرقہ میں عورتوں کو سنیاس لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے ع...