نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

وشنو مت

         ابتدائ ویدک ادب میں وشنو ایک اہم اہمیت والے دیوتا کی حیثیت سے سامنے آیا، اپنی اصلیت کے لحاظ سے یہ ایک آرین دیوتا ہے۔  ویدک دور کے آخر میں وشنو کی اہمیت بتدریج بڑھنے لگی تھی، یہاں تک کہ ویدک دور کے آخر تک وہ خدائے مطلق کا مقام حاصل مت چکا تھا۔ 

         وشنو کی مقبولیت کی تاریخ میں دوسرا اہم موڑ اس وقت آیا کہ جب وشنو کو کرشن واسو دیو کی شخصیت سے ملا دیا گیا، اور پھر تیسری صدی قبل مسیح تک وشنو نارائن جو ۵۰۰  قبل مسیح سے پہلے کا ایک دیوتا ہے۔ اور کرشن واسو دیو کو ایک دیوتا تسلیم کر لیا گیا۔ کرشن واسو دیو ایک غیر آریائ قوم یا دو قبائلی دیوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یادوؤں کے علاوہ دوسرے ہندوستانی عوام بھی کرشن واسو دیو کے حلقۂ اثر میں آتے جارہے تھے۔ وشنو نارائن اور کرشن واسو دیو کا انضمام دونوں فریقوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوا۔ برہمنی مت جو بدھ مت اور جین مت کی عوامی مقبولیت سے پریشان ہو کر عوام میں رسوخ حاصل کرنے کے لئے بے چین تھا، اسے کرشن واسو دیو میں ایک ایسا عوامی دیوتا مل گیا جسے وشنو کے اوتار کی صورت میں اپنا کر غیر آریا عناصر کو بھی برہمنی حلقۂ اثر میں آسانی سے شامل کر لیا گیا۔ اس طرح وشنو کو کرشن پرستی کا مذہب بن کر خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ مہابھارت کے مختلف حصوں کا مطالعہ اس بڑھتی ہوئ مقبولیت کو اچھی طرح واضح کرتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مہابھارت، جو ابتداء میں ایک غیر جانبدار تصنیف تھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وشنو عقائد اور نظریات سے بھر دی گئ۔ اور اپنی موجودہ صورت میں وہ بلا شبہ وشنو کی طرفدار تصنیف بن گئ ہے۔ چنانچہ مہابھارت کا وہ اہم ترین حصہ جس میں وشنو عقائد اور سری کرشن کے کردار کو پوری طرح نمایاں کیا گیا ہے۔وہ بھگوت گیتا کے نام سے موسوم ہے۔ مگر بعض محققین کا خیال ہیکہ مہابھارت میں یہ اضافہ بعد کے کچھ وشنوئ علماء کی دین ہے جنہوں نے وشنو مت کے ارتقاء میں اہم رول ادا کیا ہے۔ بھگوت گیتا میں سری کرشن کو وشنو کے اوتار کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔

          بھگوت گیتا میں برہمنی قربانیوں پر مبنی رسومات کے بجائے کرشن کی عبادت کے لئے عشق حقیقی(بھگتی) پر زور دیا گیا ہے۔ اور پھر آہستہ آہستہ وشنو نے ہندوستانی مذاہب میں اپنا ممتاز مقام بنا لیا تھا، یہی وجہ تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی عوامی حلقوں میں وشنو کے اثرات بڑھنے گئے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں جنوبی ہندوستان، خاص طور پر مدراس کے سنت شاعروں نے۔جو الور سنتوں کے نام سے مشہور تھے اپنی صوفیانہ شاعری میں وشنو اور اس کے اوتار کرشن کو معبود حقیقی مان کر ان کے لئے والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ یہ شاعری اور ان سنتوں کے جذبات عوام کے لئے بہت پر کشش اور پر تاثیر ثابت ہوئے۔ وشنو کی ایک دوسری اہم ترین تصنیف بھگوت گیتا پران اسی آٹھویں صدی عیسوی میں جنوبی ہندوستان میں تصنیف ہوئ، اس کا اہم حصہ وہ ہے جہاں سری کرشن سے گوپیوں کی والہانہ محبت کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ یہ تصنیف پورے طور پر کرشن بھگتی کے رنگ میں ڈوبی ہوئ ہے۔اور عشق حقیقی کے اس رجحان کو تقویت دیتی ہے جس کی ابتداء الور سنتوں نے کی تھی۔ دسویں صدی عیسوی سے بارہویں صدی عیسوی کے دوران جنوبی ہندوستان میں وشنو مت کے ایسے مفکر پیدا ہوئے جن کے ذریعہ کےفلسفیانہ خیالات کو بھی اہمیت حاصل ہوئ جن میں رامانج اچاریہ اور مادھو اچاریہ سب سے زیادہ مشہور ہیں جس زمانے میں جنوبی ہندوستان میں بھگتی کا فلسفیانہ پہلو موضوع بحث تھا۔ اسی وقت بھگتی کے رجحان نے شمالی ہندوستان کا رخ کیا، جہاں مسلم صوفیاء ہندوستانی عوام کے سامنے عشق حقیقی کا اسلامی نمونہ پیش کر رہے تھے۔ شمالی ہندوستان کے عوام نے بھی بھگتی کے والہانہ رجحان کو ہاتھوں ہاتھ لیا، اور بہت جلد اس کے سنتوں کے ہاتھوں وشنو مت کی یہ شکل شمالی ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گئ۔ چودھویں صدی عیسوی میں رامانند اور ان کے شاگردوں سے متعلق سنتوں نے جیسے روی داس، کبیر، دھرم داس، تلسی داس، میرا بائ، نام دیو، اور سری چیتنیہ وغیرہ کے ذریعہ بھگتی کو اور وشنو مت کو وہ مقبولیت عطا ہوئ کہ جس نے وشنو مت کو ہندو مت کا غالب ترین فرقہ بنا دیا۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جین ‏مت

    جین مت کے اپنے عقیدہ کے مطابق، یہ ایک ابدی مذہب ہے، جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ ہندوستانی روایات میں چونکہ دنیا کی کوئ  ابتداء یا انتہا نہیں ہے۔ لہذا اس اعتبار سے جین مذہب بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔ ہر دور میں وقفہ وقفہ سے ایک بعد ایک چوبیس تیر تھنکر (مصلح) پیدا ہوتے رہے اور اس کے احیاء کا کام انجام دیتے رہے۔ آخری تیر تھنکر مہاویر جین تھے، ان کے بعد اب کوئ اور مصلح نہیں آئے گا۔         تاریخی اعتبار سے اس کے ثبوت موجود ہیں کہ مہاویر جین اس مذہب کے بانی نہیں تھے۔ ہندوستان میں یہ روایت پہلے سے موجود تھی۔خود مہاویر کا خاندان بلکہ انکی پوری برادری جین مذہب کی ہی پیرو تھی۔ مہاویر نے تو سنیاس کے ذریعہ جین مذہب کے مقصد اعلی کو حاصل کیا اور اس مذہب کے سربراہ بن گئے۔ مہاویر نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں جین مت میں جو اصلاحات کیں، اور اس کی اشاعت اور استحکام کے لئے بحیثیت آخری تیر تھنکر جو اقدامات کئے، اسکی بنا پر مہاویر کو وہ اہم مقام حاصل ہوا کہ وہی اس مذہب کے بانی سمجھے جانے لگے۔          مہاویر جین مشرقی ...

جین مت کا ‏ارتقاء ‏اور ‏فرقہ ‏بندی۔

     مہاویر جین کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے ان کے تبلیغی جذبہ کو زندہ رکھا اور جلد ہی جین مت اجین اور منڈ اسر تک پہنچ گیا۔ ان کے جانشینوں نے شمال میں نیپال اور جنوب میں میسور کا سفر کیا اور وہاں جین مت کا ایک مرکز قائم کیا۔ اسی کے بعد جنوبی ہندوستان میں جین مت کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مشرق میں اڑیسہ کے حکمران راجہ کھارومل نے جین مت قبول کرنے کے بعد جین مت کی اشاعت میں بھر پور تعاون دیا۔ اشوک کے پوتے راجہ سمپراتی نے جین مت کی ترقی میں وہی سرگرمی دکھائ جو اس کے دادا اشوک نے بدھ مت کی ترقی میں دکھائ تھی۔              پہلی صدی قبل مسیح میں مشرقی ہندوستان کے مقابلہ میں جین مت مغربی ہندوستان میں کلک آچاریہ کے ذریعہ فروغ پانے میں کامیاب ہو گیا۔ شمال میں مسلم حکومت کے قیام کے وقت تک جنوبی ہندوستان میں جین مت کے عروج کا دور رہا۔ ساتویں صدی کے بعد جینی اثر جنوب مغرب سے گجرات میں داخل ہو کر ترقی کرتا ہوا راجستھاں میں داخل ہو پھلا پھولا۔ اس دور میں جین مت کے وہ رہنما پیدا ہوئے جن کے ذریعہ جین مت کے مذہبی، فکری اور روحانی ارتقاء...

جین مت کے پانچ بنیادی عہد

          (۱) اہنسا، (عدم تشدد)  (۲) ستیہ، (راست گفتاری) (۳) استیہ، (چوری نہ کرنا) (۴) برہمچریہ ( پاک دامنی) (۵) اپری گرہ (دنیا سے بے رغبتی)۔ ان پانچ بنیادی عہدوں کے علاوہ گھر بار رکھنے والے جینیوں کو سات اور عہد کرنے ہوتے ہیں، جو انہیں بنیادی عہدوں پر عمل کرنے مین معاون ہوتے ہیں۔          جین مت میں وہ جماعت جو جین سنگھ کہلاتی ہے، اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ مردوں کو سادھو اور عورتوں کو سادھوی کہا جاتا ہے۔ دونوں کو برہمچریہ کی بہت سخت پابندی کرنی ہوتی ہے۔ مردوں اور عورتوں کی جماعتیں کے نظام الگ الگ ہوتے ہیں۔ سنیاس کی ابتداء جین مت کے پانچ بنیادی عہدوں کی شکل میں لینے سے ہوتی ہے۔ پھر تمام دنیا سے ناطہ توڑ کر بے رغبتی کے ساتھ چند ضروری چیزوں کے علاوہ سب کچھ چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ مرد سادھو بغیر سلے تین کپڑے اور عورتوں کو چار کپڑے پہننے کی اجازت ہے۔ یہ اجازت بھی صرف شؤتامبر فرقہ کے سادھوؤں کو حاصل ہے۔ اس لئے کہ دگامبر فرقہ کے سادھو تو بالکل ننگے رہتے ہیں اس فرقہ میں عورتوں کو سنیاس لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے ع...