نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ہندومت

 دنیا کے جن علاقوں میں  انسانی تہذیب و تمدن نے سب سے پہلے پھلنا پھولنا شروع کیا، ان میں ہندوستان بھی ایک خطہ آرہا ہے، چونکہ آریوں سے پہلی کی مذہبی روایات کے سلسلے میں کوئی قابل اعتماد معلومات نہیں ملتی ہیں، موہن جودا ڑو اور ہڑپہ کی کھدائی میں جس تہذیب و تمدن کے آثار ملے ہیں، وہ اگرچہ آر یوں  سے قبل کی ہے، مگر  آثار  میں ملنے والی زبان سے کوئی خاص معلومات  نہیں حاصل ہو پائیں ہیں، اسی ،لیے اس کے بارے میں معلومات بھی محدود ہیں یہی وجہ ہے کہ آریوں کی آمد کے ساتھ ہی جو مذہبی روایات یہاں، یعنی ہندوستان میں متعارف ہوئیں،  وہیں سے ہندوستانی مذاہب پر کوئی قابل اعتبار گفتگو کی جا سکتی ہے،  لہذا ہم نے بھی ہندوستانی مذاہب کا ذکر وہی سے شروع کیا ہے ہندستان چونکہ ایک قدیم  ملک  ہے، لہذا اس کی قدیم مذہبی روایات  کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، برہمنی مت اور ہندو مت ۔

بر ہمنی مت کا مطلب وہ روایات ہیں جن کا آغاز ہندوستان میں آریوں کی آمد کے بعد یعنی (تقریبا ۱۵۰۰ قبل مسیح ) سے لے  کر بدھ اور جین کی عام اشارے تک  رہا یعنی (تقریبا ۴۰۰ق مسیح تک  اس مذہبی روایت کو وید مت کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ہے جس میں برہمن کو ایک خاص مرکزی حیثیت حاصل تھی، چونکہ برہمنوں کے ذریعے  ہیں اس کو فروغ حاصل ہوا تھا اسی لیے  اگر اسے  برہمنی مت کہا جائے  تو شاید کچھ غلط نہ ہوگا، برہمنوں نے آر یوں کے مذہبی شعور کی کی پوری نمائندگی  کرتے ہوئے  قدیم مذہبی اصولوں کی رہنمائی  میں اس مذہبی روایت  پر اپنا اثر بنائے رکھا، اگرچہ برہمنی روایات میں تبدیلیاں ہوتی رہیں ہیں مگر اس روایت نے اپنا ویدیک رنگ اڑنے نہیں دیا ۔

برہمنی مت کے زمانے میں جو مذہبی ادب وجود میں آیا وہ سارا ویدک  ادب میں شامل ہے برہمنیی مت  اور ہندو مت  میں وید  کو ایک  
خاص مذہبی مقام حاصل ہے، اور اسے  شرتی یعنی الہامی ادب کہا جاتا ہے، 
اگرچہ پورا ویدک ادب مقدس ارو شرتی،، میں شامل سمجھا جاتا ہے ، پھر بھی ویدوں کو مختلف بنیادوں پر مختلف قسموں میں بانٹا گیا ہے۔ ایک تقسیم ویدک ادب کی اس کے حصوں کی زمانۂ تصنیف اور ان کے موضوع کے بنیاد پر کی گئ ہے ، جو قدیم آریائ دیوی دیوتاؤں کی شان میں کہے گئے بھجن اور گیتوں کا مجموعی ہے۔ اس کے بعد والے ویدک ادب کو ،، برہمن کے نام سے ہمارا جاتا ہے۔ یہ تصانیف زیادہ تر مذہبی رسومات ، آداب زندگی اور قربانی وغیرہ سے متعلق ہیں ، برہمن تصانیف کے آخری دور میں ویدک ادب کی ایک تیاری قسم کی ابتداء ملتی ہے ، جو اپنے موضوع اور مذہبی فکر کی لحاظ سے پہلی دونوں قسموں سے مختلف ہے، جسے آرنیکا کے نام سے ہمارا جاتا ہے۔ 
ویدک ادب کی چوتھی قسم کو( اپنشد )کہا جاتا ہے،جسے ویدا نے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ ویدک ادب کا آخری حصہ ہے، یع۔ی اس پر ویدک کا انت ہوتا ہے اسی لئے اسکو ویدانت کہتے ہیں ۔

اپنشد کے بعد کی تصانیف کو جو برہمنی مت کی مقدس کتابیں کہی جاتی ہیں جیسے رامائن ، مہا بھارت، وغیرہ انکو ویدک ادب کا حصہ نہیں مانا جاتا ، کیوں کہ انہیں ،، رامائن،، کے مقابلہ میں مہابھارت زیادہ قدیم ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔
(آزاد فاروقی؛دنیا کے بڑے مذاہب صفحہ نمبر ۲۰)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جین ‏مت

    جین مت کے اپنے عقیدہ کے مطابق، یہ ایک ابدی مذہب ہے، جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ ہندوستانی روایات میں چونکہ دنیا کی کوئ  ابتداء یا انتہا نہیں ہے۔ لہذا اس اعتبار سے جین مذہب بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔ ہر دور میں وقفہ وقفہ سے ایک بعد ایک چوبیس تیر تھنکر (مصلح) پیدا ہوتے رہے اور اس کے احیاء کا کام انجام دیتے رہے۔ آخری تیر تھنکر مہاویر جین تھے، ان کے بعد اب کوئ اور مصلح نہیں آئے گا۔         تاریخی اعتبار سے اس کے ثبوت موجود ہیں کہ مہاویر جین اس مذہب کے بانی نہیں تھے۔ ہندوستان میں یہ روایت پہلے سے موجود تھی۔خود مہاویر کا خاندان بلکہ انکی پوری برادری جین مذہب کی ہی پیرو تھی۔ مہاویر نے تو سنیاس کے ذریعہ جین مذہب کے مقصد اعلی کو حاصل کیا اور اس مذہب کے سربراہ بن گئے۔ مہاویر نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں جین مت میں جو اصلاحات کیں، اور اس کی اشاعت اور استحکام کے لئے بحیثیت آخری تیر تھنکر جو اقدامات کئے، اسکی بنا پر مہاویر کو وہ اہم مقام حاصل ہوا کہ وہی اس مذہب کے بانی سمجھے جانے لگے۔          مہاویر جین مشرقی ...

جین مت کا ‏ارتقاء ‏اور ‏فرقہ ‏بندی۔

     مہاویر جین کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے ان کے تبلیغی جذبہ کو زندہ رکھا اور جلد ہی جین مت اجین اور منڈ اسر تک پہنچ گیا۔ ان کے جانشینوں نے شمال میں نیپال اور جنوب میں میسور کا سفر کیا اور وہاں جین مت کا ایک مرکز قائم کیا۔ اسی کے بعد جنوبی ہندوستان میں جین مت کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مشرق میں اڑیسہ کے حکمران راجہ کھارومل نے جین مت قبول کرنے کے بعد جین مت کی اشاعت میں بھر پور تعاون دیا۔ اشوک کے پوتے راجہ سمپراتی نے جین مت کی ترقی میں وہی سرگرمی دکھائ جو اس کے دادا اشوک نے بدھ مت کی ترقی میں دکھائ تھی۔              پہلی صدی قبل مسیح میں مشرقی ہندوستان کے مقابلہ میں جین مت مغربی ہندوستان میں کلک آچاریہ کے ذریعہ فروغ پانے میں کامیاب ہو گیا۔ شمال میں مسلم حکومت کے قیام کے وقت تک جنوبی ہندوستان میں جین مت کے عروج کا دور رہا۔ ساتویں صدی کے بعد جینی اثر جنوب مغرب سے گجرات میں داخل ہو کر ترقی کرتا ہوا راجستھاں میں داخل ہو پھلا پھولا۔ اس دور میں جین مت کے وہ رہنما پیدا ہوئے جن کے ذریعہ جین مت کے مذہبی، فکری اور روحانی ارتقاء...

جین مت کے پانچ بنیادی عہد

          (۱) اہنسا، (عدم تشدد)  (۲) ستیہ، (راست گفتاری) (۳) استیہ، (چوری نہ کرنا) (۴) برہمچریہ ( پاک دامنی) (۵) اپری گرہ (دنیا سے بے رغبتی)۔ ان پانچ بنیادی عہدوں کے علاوہ گھر بار رکھنے والے جینیوں کو سات اور عہد کرنے ہوتے ہیں، جو انہیں بنیادی عہدوں پر عمل کرنے مین معاون ہوتے ہیں۔          جین مت میں وہ جماعت جو جین سنگھ کہلاتی ہے، اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ مردوں کو سادھو اور عورتوں کو سادھوی کہا جاتا ہے۔ دونوں کو برہمچریہ کی بہت سخت پابندی کرنی ہوتی ہے۔ مردوں اور عورتوں کی جماعتیں کے نظام الگ الگ ہوتے ہیں۔ سنیاس کی ابتداء جین مت کے پانچ بنیادی عہدوں کی شکل میں لینے سے ہوتی ہے۔ پھر تمام دنیا سے ناطہ توڑ کر بے رغبتی کے ساتھ چند ضروری چیزوں کے علاوہ سب کچھ چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ مرد سادھو بغیر سلے تین کپڑے اور عورتوں کو چار کپڑے پہننے کی اجازت ہے۔ یہ اجازت بھی صرف شؤتامبر فرقہ کے سادھوؤں کو حاصل ہے۔ اس لئے کہ دگامبر فرقہ کے سادھو تو بالکل ننگے رہتے ہیں اس فرقہ میں عورتوں کو سنیاس لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے ع...