خدائے واحد کی عقیدت ومحبت کے ساتھ پرستش کی روایت ہندوستان میں بہت قدیم ہے۔ آٹھویں صدی قبل مسیح کے آس پاس سری کرشن نے واسودیو کی پرستش کی صورت میں جس مذہب کی تبلیغ کی تھی، وہ یہی بھگتی کا مسلک تھا۔ دوسری صدی قبل مسیح کے لگ بھگ بھگوت گیتا میں پہلی بار بھگتی مت کو ایک مستقل اور منظم مسلک عبودیت کے طور پر ضابطۂ تحریر میں لایا گیا، اس زمانہ میں اس تحریک میں ایسے بہت سے روحانی بزرگ پیدا ہوئے جو خدائے واحد کے لئے بہت سے ہندی اصطلاحات والے نام جیسے رام، ہری اور سوامی، وغیرہ کا استعمال تو کرتے تھے لیکن اس سے مراد خالق کائنات کی ذات ہی تھی۔
عہد وسطی کی پوری بھگتی تحریک، ہندوستانی اور اسلامی تہذیب وتمدن کے لین دین اور میل ملاپ سے ایک ایسے انقلابی نتیجہ تک پہنچ گئ جو ہندوستانی معاشرہ کی مذہبی زندگی کے لئے بہتر ثابت ہوا۔ ہندو مت اور اسلام دونوں کے مذہبی رہنماؤں نے ظاہری رسومات اور تعلیمات کو حقیقت اعلی تک پہنچنے میں رکاوٹ گردانتے ہوئے اس تعلیم پر زور دیا کہ ذات خدا وندی کا عرفان انسان کے اپنے جذبۂ اخلاص اور خدا سے قلبی تعلق پر مبنی ہے۔ نہ مذہبی اعمال اور رسومات پر۔ اس طرح عشق حقیقی کو سچی مذہبیت کا حاصل قرار دیا گیا۔ بے نفسی، ایثار، ہمدردی، خدمت خلق اور خاکساری، جیسی مسلک عشق کی خصوصیات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئ۔ ظاہری احکامات اور رسومات کی جگہ باطنی کیفیت کی اصلاح اور خدا سے قلبی تعلق پر زور دینے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کی ذات پات کی تقسیم کی شدت سے مخالفت کی گئ۔
یہی وہ بھگتی کا ماحول تھا۔ جو اسلامی عہد کے ہندوستانی معاشرہ پر اثر انداز ہو رہا تھا۔ دوسری طرف صوفیاء کے مختلف سلسلے جو ہندوستان میں ہر طرف پھیل چکے تھے۔ وہ بھی عملا اپنے مشاہدات اور مذہب کے باطنی تجربات پر زور دینے میں بھگتی تحریک کے سنتوں سے زیادہ مختلف نہ تھے۔
غرض یہی وہ مذہبی ماحول تھا جس میں سکھ مت کے بانی گرونانک جی نے آنکھیں کھولیں اور پھر اپنے عشق حقیقی کے ذاتی تجربات اور مذہبی احساسات کی شدت کی بنیاد پر بھگتی مت کے بلندیوں تک پہنچا دیا۔
حالات زندگی اور تعلیمات
گرونانک صاحب سکھ مذہب کے بانی تھے۔ ان کی پیدائش ۱۵/ اپریل/ ۱۴۶۹ء میں لاہور سے تقریبا پچاس میل جنوب مغرب میں ایک گاؤں تک ونڈی میں ہوئ تھی۔ جو اب ننکانہ صاحب کہلاتا ہے۔ وہ بیدی کھتری خاندان کے فرد تھے۔ گرونانک نے ابتدائ عمر میں سنسکرت اور ہندو مذہب کی مقدس کتابوں کا علم حاکیا اور س وقت کے عام دستور کے مطابق گاؤں کی مسجد کے مکتب میں عربی اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کا مذہبی رجحان روز بروز نمایاں ہوتا گیا۔ ان کے والد مہتہ کالو گرونانک کے مذہبی انہماک کو دیکھتے ہوئے۔ ان کے دنیوی مستقبل کے بارے میں بہت پریشان تھے۔ مگر گرونانک کاروباری زندگی سے احتراز کرتے رہے۔ ایک مرتبہ ان کے والد نے معقول رقم دیکر ایک آدمی کے ساتھ قریب ترین بازار میں بھیجا تاکہ سامان خریدیں اور کاروبار کی ابتداء کریں۔ گرونانک رقم لے کر بازار کی طرف روانہ ہو گئے۔راستے میں انہوں نے سادھوؤں کی ایک جماعت کو دیکھا جو کی وقت سے فاقہ کشی میں مبتلاء تھی۔ ان سے حالت دریافت کی اور ساری رقم ان کے کھانے پینے کا سامان خریدنے میں صرف کر دی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں